جنگ کے بعد اسرائیل اور فلسطین کا مستقبل: تباہی کے دھوئیں سے امید کی کرن تک

 جنگ کے بعد اسرائیل اور فلسطین کا مستقبل: تباہی کے دھوئیں سے امید کی کرن تک

 تحریر: [جون]




تمہید جب بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ چھڑتی ہے، صرف بارود ہی نہیں پھٹتا، بلکہ انسانیت بھی بکھر جاتی ہے۔ ہر حملے کے بعد صرف عمارتیں نہیں گرتیں، خواب، نسلیں، اور تاریخ کے صفحات بھی راکھ ہو جاتے ہیں۔ 2023-24 کی حالیہ جنگ اس تلخ حقیقت کا بدترین عکس بن کر ابھری، جس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب سوال یہ نہیں کہ کیا ہوا، بلکہ یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟

جنگ کے زخم اور سیاسی تقسیم یہ جنگ صرف راکٹوں اور فضائی حملوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے بین الاقوامی سیاسی توازن کو بھی چیلنج کر دیا۔ ایک طرف اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کر رہا ہے، تو دوسری طرف فلسطینی علاقوں—خاص طور پر غزہ—میں انسانی بحران نے دنیا کو خاموشی پر مجبور کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں، مگر کیا صرف قراردادیں اور بیانات اس المیے کا حل ہیں؟ شاید نہیں۔

مستقبل کی تین ممکنہ راہیں

  1. دو ریاستی حل: خواب یا حقیقت؟ کئی دہائیوں سے "دو ریاستی حل" (Two-State Solution) کو امن کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ ایک خودمختار فلسطینی ریاست، جو اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے، وہ آئیڈیا ہے جس پر دنیا کے بیشتر ممالک متفق ہیں۔ لیکن زمینی حقائق، آبادکاریوں کی وسعت، اور سیاسی انتہا پسندی اس خواب کو دن بہ دن دھندلا کر رہے ہیں۔

اگر عالمی برادری نے مؤثر اور غیرجانبدار کردار ادا نہ کیا، تو یہ حل صرف کتابوں میں دفن ہو جائے گا۔

  1. ایک ریاستی حل: خطرناک پیچیدگی کچھ حلقے ایک ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں جس میں اسرائیل اور فلسطینی ایک مشترکہ ملک میں رہیں۔ مگر جب نسلی، مذہبی، اور تاریخی زخم اتنے گہرے ہوں، تو مساوات پر مبنی نظام کا قیام تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ یہ راستہ مزید کشیدگی، نسلی امتیاز، اور داخلی خانہ جنگی کو جنم دے سکتا ہے۔

  2. طویل المیعاد غیر یقینی صورتحال اگر جنگ بندی کے بعد بھی بنیادی مسائل حل نہ ہوئے—جیسے فلسطینی خودمختاری، واپسی کا حق، سرحدوں کی تعریف—تو صورتحال ایک ’منجمد تنازع‘ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایک ایسا بحران جو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ وقفے وقفے سے بھڑکتا رہتا ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو آج کی نسل، اور آنے والی نسلیں، مسلسل جھیلتی رہیں گی۔

امید کی کرن کہاں ہے؟ اسرائیلی اور فلسطینی نوجوان نسل، سوشل میڈیا پر جڑی آوازیں، بین الاقوامی سول سوسائٹی کی بیداری—یہ سب تبدیلی کے بیج ہیں۔ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں، مگر امن لوگ بناتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسے بیانیے کی، جو انسان کو انسان سمجھے، مذہب، نسل اور جغرافیہ کے پردے سے بالاتر ہو۔

ایک فلسطینی لڑکی نے سوشل میڈیا پر لکھا، "میں خواب دیکھتی ہوں کہ میرے بچوں کو بموں کی آواز نہیں، پرندوں کی چہچہاہٹ سے نیند آئے۔" ایسی آوازیں ہی مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔

امن کی کنجی نہ واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے، نہ اقوامِ متحدہ کی فائلوں میں۔ یہ کل بھی یروشلم اور غزہ کی گلیوں میں تھی، اور آج بھی وہیں ہے—بس اسے تلاش کرنے، تسلیم کرنے اور پروان چڑھانے والا کوئی چاہیے۔

اختتامیہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ محض دو قوموں کا جھگڑا نہیں، یہ عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ جو کچھ گزر چکا، اسے واپس نہیں لایا جا سکتا، مگر جو آنے والا ہے—اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ممکن نہیں، ضروری ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

*کامیاب انسان کے 10 راز آپ کی زندگی بدل دینگے۔ :

Judge Skeptical of Meta’s Claims It Did Not Violate Copyright Law in AI Lawsuit

IPTV RESTREAM CONNEECTIONS AVAILABLE FOR YOU